ساجد علی سَینَوی (جامعۃ المصطفیٰ کراچی)
حوزہ نیوز ایجنسی| علامہ سید محمد حسین طباطبائیؒ کی اہم اور مؤثر تصنیف "القرآن فی الاسلام" کا بنیادی مقصد مسلمانوں کو قرآنِ کریم کی حقیقی حیثیت اور اس کی ہمہ گیر رہنمائی سے آگاہ کرنا ہے۔ اس کتاب میں قرآن کے نزول، اس کی حفاظت، عقل و علم کے ساتھ اس کے تعلق اور امتِ مسلمہ کے رویّوں پر تفصیلی بحث کی گئی ہے۔ اس تبصرے میں کتاب کی خصوصیات، محدودیت، اور عصرِ حاضر کے لیے اس کی افادیت کا جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ نتیجتاً کہا جا سکتا ہے کہ اگرچہ کتاب مختصر ہے، لیکن قرآن شناسی اور عملی ہدایت کے اعتبار سے نہایت اہم اور مؤثر تحریر ہے۔
مقدمہ
قرآنِ کریم مسلمانوں کی بنیادی بلکہ جامع ترین کتاب ہے، جو ہر دور میں انسانیت کے لیے سرچشمۂ ہدایت رہی ہے۔ تاریخِ اسلام میں بے شمار علما اور مفسرین نے قرآن کی عظمت، اس کی تفسیر اور علمی مقامات پر گراں قدر کتب تحریر کی ہیں۔
بیسویں صدی کے عظیم مفسر علامہ سید محمد حسین طباطبائیؒ نے اپنی شہرۂ آفاق تفسیر "المیزان فی تفسیر القرآن" کے علاوہ ایک اہم کتاب "القرآن فی الاسلام" بھی تصنیف کی، جس میں انہوں نے عام فہم انداز میں قرآن کے جامع تصور کو پیش کیا۔
یہ کتاب علمی و تحقیقی ہونے کے ساتھ ساتھ اصلاحی اور دعوتی مزاج بھی رکھتی ہے۔ اس تبصرے میں مصنف کی زندگی، کتاب کا مقصد، اس کے ابواب، نمایاں خصوصیات و خامیاں، اور اس کی عصری اہمیت کا تفصیلی جائزہ شامل ہے۔
مصنف کا تعارف اور حالاتِ زندگی
علامہ سید محمد حسین طباطبائیؒ 1903ء میں تبریز میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی، اور بیس برس کی عمر میں اعلیٰ تعلیم کے لیے نجفِ اشرف تشریف لے گئے۔ پانچ برس کی عمر میں والدہ اور نو برس میں والد کا انتقال ہو گیا، جس کے باعث بچپن کڑی آزمائشوں میں گزرا۔
تبریز میں انہوں نے ادبیات اور علومِ دینیہ کی تعلیم معروف اساتذہ مثلاً محمد علی سرابی سے حاصل کی، اور خوش نویسی مرزا علی نقی سے سیکھی۔ نجف میں آپ اپنے بھائی کے ہمراہ تعلیم و عبادت میں مصروف رہے، اور ان کی مالی کفالت تبریز کے گاؤں "شادآباد" میں موجود آبائی زمین سے ہوتی تھی۔
نجف سے فراغت کے بعد 1935ء میں وطن واپس آئے اور معاشی مجبوری کے باعث تقریباً دس برس کاشتکاری میں گزرے۔ علامہ خود اعتراف کرتے ہیں کہ یہ برس علمی ترقی کے لحاظ سے ضائع ہوئے۔
دوسری جنگِ عظیم اور آذربائیجان کے سیاسی انتشار نے آپ کو مجبور کیا کہ تبریز چھوڑ کر قم منتقل ہو جائیں، جہاں آپ کی علمی اور روحانی استعداد پورے طور پر نمایاں ہوئی۔ قم میں آپ نے تفسیر، فلسفہ، اخلاق اور عرفان کے شعبوں میں غیر معمولی مقام حاصل کیا، اور تیس برس کے اندر آپ کی شہرت دنیا بھر میں پھیل گئی۔ امریکی حکومت نے آپ کو فلسفہ پڑھانے کی دعوت دی جسے آپ نے قبول نہ فرمایا۔
اسی دور میں کارل مارکس کے افکار پھیل رہے تھے۔ علامہ نے کمیونزم، میٹیریلزم اور جدید مادہ پرستانہ نظریات کا گہرا مطالعہ کیا اور ان کے علمی نقد کے لیے "اصولِ فلسفہ و روشِ ریلزم" جیسی عظیم کتاب تصنیف کی۔
اساتذہ
علامہ نے زندگی میں کم از کم بارہ جلیل القدر اساتذہ سے کسبِ فیض کیا، جن میں نمایاں نام یہ ہیں:
مرزا علی ایروانی
سید ابوالحسن اصفہانی
مرزا علی اصغر ملکی
آیت اللہ حجّت
میرزا علی قاضی
شیخ مرزا علی سرابی
آقا مرزا علی نقی
مرزا محمد حسین نائینی
شیخ محمد حسین اصفہانی
سید حسین بادکوبہ ای
سید ابوالقاسم خوانساری
آیت اللہ کمپانی
ان میں سے علامہ میرزا علی قاضی سے غیر معمولی عقیدت رکھتے تھے، جو بلندپایہ عالم ہونے کے ساتھ ساتھ صوفیانہ و روحانی مقام رکھتے تھے۔
تالیفات و تصنیفات
علامہ کی پوری زندگی درس و تدریس اور تالیف و تحقیق میں گزری۔ آپ گوشہ نشین رہ کر شب و روز علمی خدمت میں مشغول رہتے۔ آپ کی سب سے عظیم تصنیف "تفسیر المیزان" ہے جو 30 جلدوں پر مشتمل ہے اور عصرِ جدید کے علمی و فلسفیانہ سوالات کی روشنی میں قرآن کی بے نظیر تفسیر پیش کرتی ہے۔
اس کے علاوہ آپ نے 31 سے زائد مستقل کتب تصنیف کیں، جن میں سے بعض کئی جلدوں پر مشتمل ہیں۔
ایران کے اکثر بڑے علما آپ کے شاگرد ہیں۔ شہید مرتضیٰ مطہری آپ کے خصوصی شاگردوں میں سے تھے، جنہوں نے آپ کے افکار کی نشر و اشاعت میں نمایاں کردار ادا کیا۔
اخلاق و سیرت
علامہ طباطبائیؒ نہایت متواضع، منکسر المزاج، باوقار اور اخلاقِ حسنہ سے مزین شخصیت تھے۔ درسگاہ میں کبھی تکیہ لگا کر نہ بیٹھتے۔ شاگردوں کو ہمیشہ عزت دیتے اور خود نیچی جگہ بیٹھتے۔
آپ عربی و فارسی ادبیات میں مہارت رکھتے تھے، اور آپ کے فارسی اشعار آپ کے لطیف ذوق کی گواہی دیتے ہیں۔
کتاب لکھنے کا مقصد
القرآن فی الاسلام تحریر کرنے کے بنیادی مقاصد یہ تھے:
امت کو یہ باور کرانا کہ قرآن صرف تلاوت اور برکت کی کتاب نہیں، بلکہ عملی زندگی کے ہر پہلو کے لیے دستورِ حیات ہے۔
مسلمانوں کو قرآن کی حفاظت، عقل و علم کے ساتھ اس کے تعلق اور دین کی بنیاد کے طور پر اس کی اہمیت کی طرف متوجہ کرنا۔
عوام و خواص دونوں کو قرآن کے حقیقی مقام سے روشناس کروانا۔
باب اول: قرآن کی اہمیت اور مقام
اس باب میں قرآن مجید کی ہمہ گیر اہمیت کو واضح کیا گیا ہے۔
قرآن انسانی زندگی کے مکمل پروگرام کی ضمانت ہے۔
قرآن نبوت کی سند اور رسولِ اکرم ﷺ کا دائمی معجزہ ہے۔
باب دوم: قرآن کی تعلیمات
یہ باب قرآن کے ظاہری و باطنی معانی، محکم و متشابہ، تاویل و تنزیل، ناسخ و منسوخ اور علوم القرآن کے مباحث پر مشتمل ہے۔ اس میں تفسیر کے مختلف مکاتبِ فکر کا تقابلی جائزہ بھی ملتا ہے۔
باب سوم: قرآن اور وحی
اس باب میں وحی کی ضرورت، حقیقت، کیفیت اور غلط فہمیوں کے ازالے پر بحث کی گئی ہے۔ قرآن کی روشنی میں وحی کو عقل سے بالاتر اور خطا سے پاک ذریعۂ ہدایت ثابت کیا گیا ہے۔
باب چہارم: قرآن اور دیگر علوم
یہ باب ان علوم کا تعارف کراتا ہے جنہیں قرآن نے جنم دیا، یا جن کی ترقی میں بنیادی کردار ادا کیا۔ قرآن علم و تحقیق کی ترغیب کو انسانیت کے لیے ناگزیر قرار دیتا ہے۔
باب پنجم: قرآن کا نزول اور حفاظت
اس باب میں ترتیبِ نزول، اسبابِ نزول، جمعِ قرآن، مصحف کی تشکیل، قراءات، قراء سبعہ، حفاظتِ قرآن، رسم الخط اور تاریخی روایات کو جامع انداز میں بیان کیا گیا ہے۔
نمایاں خصوصیات
سادہ اور واضح اسلوب
عام فہم مگر جامع موضوعات
اصلاحی و دعوتی روح
علمی وقار اور فکری گہرائی
ہمارے لیے فوائد
قرآن کے ساتھ زندہ تعلق قائم کرنے کی دعوت
قرآن کی جامعیت کا آسان تعارف
طلبہ اور عام قارئین کے لیے رہنمائی
دینی و اجتماعی زندگی میں قرآن کو مرکز بنانے کی ترغیب
نتیجہ
القرآن فی الاسلام علامہ طباطبائیؒ کی ایک نہایت اہم، جامع اور بامقصد تصنیف ہے۔ اگرچہ اس میں تفصیل کم ہے مگر دعوتی گہرائی اور فکری بصیرت اسے عصرِ حاضر کے لیے غیر معمولی اہمیت عطا کرتی ہے۔
یونیورسٹیوں اور مدارس کے طلبہ کے لیے یہ کتاب قرآن فہمی کا بہترین تعارفی ذریعہ اور تحقیقی مطالعے کی مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہے۔
مصادر و مراجع
طباطبائی، سید محمد حسین۔ القرآن فی الاسلام۔ تہران: مکتبہ اسلامیہ۔
المیزان فی تفسیر القرآن۔ دارالکتب الاسلامیہ، بیروت۔
مطہری، مرتضیٰ۔ سیر در تفسیر قرآن۔ تہران۔
جعفری، محمد تقی۔ قرآن اور جدید انسانی مسائل۔ قم۔









آپ کا تبصرہ